حج کی فرضیت
وَ للّه عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطَاعَ اِلَيهِ سَبِيلاً
وَ مَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِینَ
(سورہ آل عمران، آیت:۹۷)
ترجمہ : اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی اور جو نہ مانے تو پھر اللہ پرواہ نہیں رکھتا جہاں کے لوگوں کی .
آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے تمام ایمان والوں پر حج کو اس شرط کے ساتھ فرض و لازم قرار دیا ہیکہ حج کرنے پر قدرت اور استطاعت ہو ,
قدرت و استطاعت ہونے کا یہ مطلب ہیکہ اس کے پاس ضروریات اصلیہ سے اتنا زائد مال ہو جس سے وہ بیت اللہ تک آنے جانے اور وہاں قیام و طعام کا خرچہ پرداشت کر سکے اور اپنی واپسی تک اہل و عیال جن کا نفقہ اس کے ﺫمے ہے ان کا بندوبست بھی کر سکے , نیز ہاتھ پاؤں اور آنکھوں سے معذور نہ ہو کیونکہ ایسے معذور کو تو اپنے وطن میں چلنا پھرنا مشکل ہے تو وہاں جانے اور ارکان حج ادا کرنے کی قدرت کیسے ہوگی , اسی طرح عورت کے لئے چونکہ بغیر محرم سفر کرنا شرعاً جائز نہیں اس وجہ سے وہ اس وقت حج پر قادر سمجھی جائے گی جب اس کے ساتھ کوئی محرم حج کرنے والا ہو چاہے وہ محرم اپنے خرچ سے حج کر رہا ہو یا یہ عورت اس کا خرچ بھی برداشت کرے ,
اسی طرح وہاں پہنچنے تک راستے کا مامون ہونا بھی استطاعت کا ایک جزء ہے اگر راستہ میں بدامنی ہو اور جان مال کو نقصان پہنچنے کا قوی خطرہ ہو تو حج کی استطاعت نہیں سمجھی جائے گی .
اور آیت مبارکہ میں ” من کفر ” کا ﺫکر کا مطلب یہ ہیکہ صراحتاً کافر تو نہیں ہوگا مگر کافروں جیسے عمل کا مرتکب ہوگا یعنی جیسے کافر و منکر حج نہیں کرتے یہ بھی ایسا ہی ہے , اس آیت میں ان لوگوں کے لئے سخت وعید ہے جو قدرت و استطاعت ہونے کے باوجود حج نہیں کرتے سستی کرتے ہیں .
عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” بنی الاسلام علی خمس شھادۃ ان لا الہ الا اللہ و ان محمدا رسول اللہ و اقام الصلاۃ و ایتاء الزکاۃ والحج و صوم رمضان ” رواہ البخاری
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے
1. اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں
2. نماز قائم کرنا
3. زکاۃ ادا کرنا
4. حج
5. رمضان کے روزے رکھنا .
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ قال خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ” ایھا الناس فرض علیکم الحج فحجو .
( جزء الحدیث ) رواہ مسلم
ابو ھریرہ رضی عنہ سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا ” تم لوگوں پر حج فرض ہے پس حج ( کا فریضہ ادا ) کرو ” .
( یہ ایک طویل حدیث کا جزء ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نےصحیح مسلم میں نقل کیا ہے ) .
حج کس سن میں فرض ہوا اس میں کئی اقوال ہیں , بعض نے 6 ہجری بعض نے 8 ہجری اور بعض نے 9 ہجری میں حج کی فرضیت بیان کی ہے .
8 ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا اور 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہما کو حج کے لئے بھیجا اور ان کے ﺫریعے اعلان کروایا کہ آئندہ کوئی مشرک بیت اللہ کا حج کرنے نہیں آئے گا اور کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا ( جیسا کہ جاہلیت کے ایام میں اور فتح مکہ سے پہلے مشرک لوگ برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف کیا کرتے تھے ) .
اس اعلان کے اگلے سال بعد 10 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بنفس نفیس سوا لاکھ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کت ساتھ حج ادا فرمایا جو حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے .
حج کی فرضیت سے پہلے تمام ارکان اسلام فرض ہو چکے تھے , نماز تو ہجرت سے پہلے مکہ میں ہی فرض ہو گئی تھی , رمضون کے روزے اور زکوۃ ہجرت کے بعد مدینہ میں فرض ہوئے , جہاد اور قربانی کا حکم بھی حج سے پہلے آچکا تھا اور ان سب پر عمل بھی ہو رہا تھا مگر ان سب کے باوجود اللہ تعالی کی طرف سے تکمیل دین اور اتمام نعمت کا اعلان نہیں ہوا مگر حجۃ الوداع کے موقع پر عین خطبہ کے درمیان آیت نازل ہوئی :
” الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا ” .
آج جکے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین بنا کر راضی ہو گیا .
( سورہ مائدہ , آیت 3 )
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان دیگر عبادات ادا کرتا رہے مگر حج فرض ہونے کے بعد اگر فریضہ حج ادا نہ کیا تو تکمیل دین اور تکمیل ایمان ادھورا ہے .