حج کے پانچ دن
پہلا دن ۸ ذی الحجہ
آج طلوع آفتاب کے بعد حالتِ احرام میں سب حجاج کو مِنیٰ جانا ہے ۔
مُفرِد ( حج افراد کر نے والا ) جس کا احرام حج کا ہے
اور قارن یعنی حجِ قِران کرنے والا ، جس کا احرام حج و عمرہ دونوں کا ہے، ان کے احرام تو پہلے سے بندھے ہو ئے ہیں، البتہ متمتع یعنی
حجِ تمتع کر نے والا، جس نے عمرہ کر کے احرام کھول دیا تھا اور اسی طرح اہل حرم آج حج کا احرام باندھیں ، سنت کے مطابق غسل کر کے احرام کی چادریں پہن لیں، احرام کیلئے دو رکعت پڑھیں، اور حج کی نیت کر کے تلبیہ پڑھیں ، تلبیہ پڑھتے ہی احرام شروع ہو گیا اور احرام کی تمام مذکورہ پابندیاں لازم ہو گئیں ، اس کے بعد منیٰ کو روانہ ہوجا ئیں ۔
منیٰ مکہ مکرمہ سے تین میل کے فاصلے پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے، آٹھویں تاریخ کی ظہر سے نویں تاریخ کی صبح تک منی میں پانچ نمازیں پڑھنا ، اور رات کو منی میں قیام کرنا سنت ہے اگر اس رات کو مکہ مکرمہ میں رہا یا عرفات میں پہنچ گیا تو مکروہ ہے ۔
دوسرا دن ۹ ذی الحجہ
آج حج کا سب سے بڑا رکن یعنی ‘‘ وقوف عرفہ ’’ ادا کرنا ہے جس کے بغیر حج نہیں ہو تا ، طلوع آفتاب کےٍ بعد جب کچھ دھوپ پھیل جائے منیٰ سے عرفات کیلئے روانہ ہو جائے جو منی سے تقریبا چھ میل ہے ، جب جبل رحمت پر نظر پڑے ( میدان عرفات میں ایک پہاڑ ہے ) تو تسبیح و تہلیل و تکبیر کہے اور جو چاہے دعا مانگے ، خواہ یہ دعا مانگ لے :
اللهم إليك توجهت و عليك توكلت و وجهك أردت اللهم اغفرلي و تب علي واعطني سؤلي و وجه لي الخير حيث توجهت , سبحان الله و الحمد لله و لا إله إلا الله و الله أكبر
ترجمہ : اے اللہ ! میں نے آپ ہی کی طرف توجہ کی اور آپ ہی پر بھروسہ کیا ، اور آپ ہی کی رضا کا ارادہ کیا ، اے اللہ میری مغفرت فرما اور میری تو بہ قبول فرما اور میرا سوال پورا فرما، اور خیر کو میرے لئے ادھر متوجہ فرما دے جدھر میری توجہ ہو، میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہو ں اور سب تعریف اللہ کے لئے ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے ۔
نویں ذی الحجہ کو زوال کے بعد سے صبح صادق تک کے درمیانی حصہ میں احرام حج کی حالت میں کسی قدر بھی عرفات میں ٹھہر جا ئے یا وہاں سے گزر جا ئے تو اس کا حج ہو جا ئے گا اگر اس وقت میں ذرا دیر کو بھی عرفات میں نہ پہونچا تو حج نہ ہوگا اور زوال کو بعد غروب آفتاب تک عرفات میں ٹھہرنا واجب ہے جو شخص اس وقت میں نہ پہنچ سکے وہ آنے والی رات میں کسی وقت بھی پہنچ جائے تو اس کا حج ہو جائے گا ۔
مستحب یہ ہے کہ زوال آفتاب کے بعد غسل کرلے ، اور اس کا موقع نہ ملے تو وضو ہی کر لے اور اول وقت نمازادا کر کے وقوف شروع کر دے ۔
سنت طریقہ یہ ہے کہ ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی امیر حج کی اقتداء میں پڑھی جائے یعنی عصر کو بھی ظہر کے وقت میں ہی پڑھ لے ، وہاں جو بڑی مسجد ہے جس کو مسجد نمرہ کہتے ہیں اس میں امام دونوں نمازیں اکٹھی پڑھا تا ہے ، لیکن چونکہ ہر شخص وہاں پہنچ نہیں سکتا اور سب حاجی اس میں سما بھی نہیں سکتے اوربغیر امیر حج کی اقتداء کے دونوں نمازوں کو عرفات میں جمع کرنا حدیث شریف سے ثابت بھی نہیں ہے ، اور امام کے مقیم یا مسافر ہو نے کا یقینی طور پر علم بھی نہیں ہو تا ، اس لئے ہندوستان ، پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان وغیرہ کے حنفی علماء کرام حاجیوں کو یہی فتوی دیتے ہیں کہ اپنے اپنے خیموں میں نماز پڑھنے والے ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں باجماعت پڑھیں اور نمازوں کے علاوہ جو وقت ہے اسے ذکر اور دعاء اور تلبیہ میں صرف کریں ۔ اجتہادی مسائل میں شدت پسندی جائز نہیں آپ اپنے مذہب کے مطابق عمل کریں دو سروں پر اعتراض نہ کریں ۔
وقوف عرفات کا مسنون طریقہ
زوال آفتاب کے بعد سے غروب آفتاب تک پورے میدان عرفات میں جہاں چاہے وقوف کر سکتا ہے مگر افضل یہ ہے کہ جبلِ رحمت جو عرفات کا مشہور پہاڑ ہے اس کے قریب جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف ہے اس جگہ وقوف کر ے ، بالکل اس جگہ نہ ہو تو جس قدر اس کے قریب ہو بہتر ہٍے ، لیکن اگر جبل رحمت کے پاس جانے میں دشواری ہو یا واپسی کے وقت اپنا خیمہ تلاش کرنا مشکل ہو جیساکہ آجکل عموما پیش آتا ہے، تو اپنے خیمے میں ہی وقوف کرے ، خود کو تکلیف میں نہ ڈالے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ پورے عرفات میں کہیں بھی وقوف کیا جاسکتا ہے ۔
افضل اور اعلی تو یہ ہے کہ قبلہ رخ کھڑا ہو کر مغرب تک وقوف کرے اور ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتا رہے ، اگر پورے وقت کھڑا نہ ہو سکے تو جس قدر کھڑا ہو سکتا ہو کھڑا رہے پھر بیٹھ جائے پھر جب قوت ہو کھڑا ہو جائے ، اور پورے وقت میں خشوع و خضوع اورگریہ و زاری کے ساتھ ذکر اللہ ، تلاوت اور درود شریف و استغفار میں مشغول رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر میں تلبیہ پڑھتا رہے اور دینی اور دنیوی مقاصد کے لئے اپنے واسطے اور اپنے متعلقین و احباب کے واسطے خاص کر ان لوگوں کیلئے جنہوں نے دعاؤں کی درخواست کی ہو اور تمام مسلمانوں کے واسطے دعائیں مانگتا رہے ، یہ وقت مقبولیت دعاء کا خاص وقت ہے اس دن بلاضرورت آپس کی جائز گفتگو سے بھی پرہیز کرے ، پورے وقت کو دعا ؤں اور ذکر اللہ میں صرف کرے ۔
عرفات کی دعائیں
ترمذی شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بہتر دعا عرفہ کےد ن کی دعا ہے ، اور سب سے بہتر جو میں نے اور مجھ سے پہلے نبیوں نے کہا وہ یہ ہے :
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد و هو على كل شيء قدير
ترجمہ :اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
( رواہ الترمذی )
مناسک ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی میں طبرانی سےنقل کیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی عرفات کی دعاؤں میں یہ دعاء بھی تھی :
اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى مَكَانِي ، وَتَسْمَعُ كَلامِي ، وَتَعْلَمُ سِرِّي وَعَلانِيَتِي ، لا يَخْفَى عَلَيْكَ شَيْءٌ مِنْ أَمْرِي ، أَنَا الْبَائِسُ الْفَقِيرُ ، الْمُسْتَغِيثُ الْمُسْتَجِيرُ ، الْوَجِلُ الْمُشْفِقُ ، الْمُقِرُّ الْمُعْتَرِفُ بِذَنَبِهِ ، أَسْأَلُكَ مَسْأَلَةَ الْمِسْكِينِ ، وَأَبْتَهِلُ إِلَيْكَ ابْتِهَالَ الْمُذْنِبِ الذَّلِيلِ ، وَأَدْعُوكَ دُعَاءَ الْخَائِفِ الضَّرِيرِ ، مَنْ خَضَعَتْ لَكَ رَقَبَتُهُ ، وَ فَاضَتْ ٍ لَکَ عَيْنهُ وَ نَحَلَ لَكَ جَسَدُهُ ، وَرَغِمَ لَكَ أَنْفُهُ ، اللَّهُمَّ لا تَجْعَلْنِي بِدُعَائِكَ شَقِيًّا ، وَكُنْ بِى رَءُوفًا رَحِيمًا ، يَا خَيْرَ الْمَسْئُولِينَ ، وَيَا خَيْرَ الْمُعْطِينَ.
ترجمہ :اے اللہ بے شک تو میرے وقوف کی جگہ کو دیکھ رہا ہے اور میری بات کو سن رہا ہے اور میرا ظاہر و باطن سب جانتا ہے اور میرے امور میں سے تجھ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ، اور میں سختی میں مبتلا ہو ں محتاج ہوں فریادی ہوں پناہ کا طلبگار ہو ں خوفزدہ ہوں گناہوں کا اقراری ہوں اور اعتراف کرتا ہو ں میں تجھ سٍے سوال کرتا ہوں مسکین کی طرح اور تیرے سامنے گڑگڑا تا ہوں شرمندہ گنہگار کی طرح اور میں تجھ کو پکارتاہوں جیساکہ خوفزدہ مصیبت زدہ پکارتا ہے اور جیسا کہ وہ شخص پکارتا ہے جس کی تیرے سامنے گردن جھک گئی اور جسکے آنسو جاری ہو گئے اور جسکا جسم تیرے خوف سے دبلا ہو ا اور جسکی ناک تیرے لئے خاک آلود ہوئی، اے میرے رب ! مجھے محروم نہ فرما اور میرے لئے بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہو جا اے وہ ذات پاک جو ان میں سب سے بہتر ہے جن سے سوال کیا گیا اور اے وہ ذات پاک جو سب سے بڑھکر عطا فرمانے والے ہے ۔
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے شعب الایمان میں حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بھی کوئی مسلمان عرفہ کے دن زوال کے بعد عرفات میں قبلہ رخ ہوکر سو مرتبہ ۔
لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك و له الحمد و هو على كل شيء قدير پڑھے
پھر سو مرتبہ قل ہو اللہ احد ( پوری سورہ اخلاص ) پڑھے، پھر سو مرتبہ مندرجہ ذیل درود پڑھے
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على إبراهيم و على آل إبراهيم إنك حميد مجيد و علينا معهم
تو اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اے میرے فرشتو! میرے اس بندہ کی کیا جزا ہے ، اس نے میری تسبیح و تہلیل کی (یعنی میری توحید بیان کی) اور میری بڑائی اور عظمت بیان کی اور میری معرفت حاصل کی اور میری شان بیان کی اور میرے نبی پر درود بھیجا ، اے میرے فرشتو! تم گواہ رہو میں نے اس کو بخش دیا اور اس کی جان کے بارے میں اس کی سفارش قبول کی ، اور اگر میرا بندہ مجھ سے تمام عرفات والوں کیلئے سفارش کرے تو اس کی سفارش ان سب کے حق میں قبول کروں گا ۔
( رواہ البیہقی فی شعب الایمان من جابر رضی اللہ تعالی عنہ )
حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ عرفات میں میری اور مجھ سے پہلے نبیوں کی اکثر دعا یہ ہے :
لاَ إِلَه إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا اللَّهُمَّ اشْرَحْ لِى صَدْرِى وَيَسِّرْ لِى أَمْرِى وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ وَسْوَاسِ الصَّدْرِ وَشَتَاتِ الأَمْرِ وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا يَلِجُ فِى اللَّيْلِ وَشَرِّ مَا يَلِجُ فِى النَّهَارِ وَشَرِّ مَا تَهُبُّ بِهِ الرِّيَاحُ وَمِنْ شَرِّ بَوَائِقِ الدَّهْرِ۔
ترجمہ : اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے ملک ہے اور اسی کے لئے حمد ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ،اے اللہ میرے دل میں نور کردے اور میرے کانوں میں نور کر دے ، اور میرے آنکھوں میں نور کر دے ،اے اللہ ! میرا سینہ کھول دے اور میرے کاموں کو آسان فرمادے اور میں سینے کے وسوسوں سے اور کاموں کے بگڑنے سے اور قبر کے فتنہ سے تیری پناہ چاہتاہوں ، اے اللہ ! میں تیری پناہ چاہتاہوں اس چیز کے شر سے جو رات میں داخل ہو تی ہے اور اس کے شر سے جو دن میں داخل ہو تی ہے اور اس چیز کے شر سے جس سے ہوا لے کر چلتی ہے اور زمانہ میں پیدا ہو نے والی مصیبتوں سے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ )
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے منقول ہے کہ وہ عرفات میں عصر کی نماز سے فارغ ہو کر ہاتھ اٹھا کر وقوف میں مشغول ہو جاتے تھے اور اللَّهُ أَكْبَرُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ. پڑھ کریہ دعا پڑھتےتھے۔ اللَّهُمَّ اهْدِنِي بِالْهُدَى ، وَنقِنِی بِالتَّقْوَى ، وَاغْفِرْ لِی فِی الآخِرَةِ وَالأُولَى.
(حصن حصین )
اس کے بعد ہاتھ نیچے کر لیتے تھے اور جتنی دیر میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے اتنی دیر خاموش رہ کر پھر ہاتھ اٹھا تے تھے اور اسی طرح دعا کرتے تھے جس طرح اوپر بیان ہوئی۔
مذکورہ بالا دعاؤں کے علاوہ اور جو چاہے اور جس زبان میں چاہے دعا کرے اور دل خوب حاضر کر کے خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگے کیونکہ حقیقی معنی میں دعا و ہی ہے ، جو دل سے نکلے ، جو دعائیں اس موقع سے متعلق روایات حدیث سے ثابت ہیں ان کا خاص اہتمام کرنا چاہئے جو اوپر لکھ دی گئیں ہیں ، دعاؤں کے درمیان بار بار تلبیہ بھی پڑھتا رہے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے بٍے شمار جامع دعائیں منقول ہیں جو کسی وقت یا مقام کے ساتھ مخصوص نہیں وہ دعائیں ہر وقت مانگی جاسکتی ہیں اور ان دعاؤں کو الحزب الاعظم اور مناجا ت مقبول میں جمع کردیا گیا ہے عرفات میں ان کتابوں میں سے جس قدر چاہے دعائیں پڑھ لے ۔ بہت لمبا وقت ہو تا ہے اس میں بہت کچھ پڑھ سکتے ہیں اور مانگ سکتے ہیں ۔
عرفات سے مزدلفہ کو روانگی
مزدلفہ عرفات سے مغرب کی طرف تین میل کے فاصلے پر ہے، آفتاب غروب ہو تے ہی مزدلفہ کے لئے روانہ ہو جائے ، راستہ میں ذکر اللہ اور تلبیہ میں مشغول رہے ، اس روز حجاج کے لئے مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھنا جائز نہیں ، نماز مغرب کو مؤخر کر کے عشاء کے وقت نماز عشاء کے ساتھ پڑھنا واجب ہے ، مزدلفہ پہنچ کر اول مغرب کے فرض پڑھے اور مغرب کے فرضوں کے فورا بعد عشاء کے فرض پڑھے، اور سنتیں اور وتر سب بعد میں پڑھے ۔
مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک اقامت سے پڑھی جائیں اور مزدلفہ میں دونوں نمازوں کو اکٹھا پڑھنے کیلئے جماعت شرط نہیں ہے، تنہا ہو تب بھی اکٹھا کر کے پڑھے ۔
اگر مغرب کی نماز عرفات میں یا راستہ میں پڑھ لی ہے تو مزدلفہ میں پہنچ کر اس کا اعادہ کرنا یعنی دوبارہ پڑھنا واجب ہے، اگر عشاء کے وقت سٍے پہلے مزدلفہ پہنچ گیا تو ابھی مغرب کی نماز نہ پڑھے عشاء کے وقت کا انتظار کرے اورعشاء کے وقت میں دونوں نمازوں کو جمع کرے ۔
مزدلفہ کی رات میں ذکر و عبادت میں مشغول رہنا مستحب ہے ، ( اگر آرام کر ے اور سوجائے تو اس میں بھی اتباع سنت کی نیت کرے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٍی مزدلفہ میں آرام فرمایا ہے ۔ از مرتب ) اور اس شب میں مزدلفہ میں رہنا سنت مؤکدہ ہے ، بہت سے لوگ وقت سے پہلے ہی فجر کی اذان دے کر نماز فجر مزدلفہ میں پڑھ کر منیٰ کو چلے جاتے ہیں، اول تو فرض نماز ترک کر کے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو تے ہیں کیونکہ وقت سے پہلے نماز نہیں ہو تی ۔ دوسرے وقوف مزدلفہ ( جو واجب ہے ) چھوڑنے کا گنا ہ ہو تا ہے، اور دم بھی واجب ہو تا ہے ، حج کرنے نکلے ہیں قاعدہ کے مطابق عمل کریں ، ایک فرض ( یعنی حج ) ادا کیا اور دوسرا فرض( یعنی نماز) ترک کر نے کا گناہ سر لے لیا ، یہ کیا سمجھداری ہے ؟ اور بہت سے لوگ تو نفلی حج میں ایسی حرکت کر تے ہیں، ایسے نفلی حج کی ضرورت کیا ہے جس میں فرض نماز ترک کی جائے ، البتہ اگر عورتیں ہجوم کی وجہ سے مزدلفہ میں نہ ٹھہریں سیدھی منیٰ چلی جائیں تو ان کے لئے گنجائش ہے اس پر دم واجب نہ ہوگا اور اگر مرد ہجوم کی وجہ سے وقوف مزدلفہ چھوڑ دے تو یہ جائز نہیں ہے مزدلفہ میں رات گذارنا سنت مؤکدہ ہے ، اور صبح صادق کے بعد مزدلفہ میں رہنا واجب ہے۔اور واجب کے چھوٹ جانے سے دم واجب ہو تا ہے ۔
تیسرا دن ۱۰ ذی الحجہ :
آج ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ہے اس میں حج کے بہت سے احکام ہیں
پہلا حکم وقوف مزدلفہ ہے جو واجب ہے ۔ اس کا وقت طلوع فجر (صبح صادق)سے طلوع آفتاب(سورج نکلنے) تک ہے ، اگر کوئی شخص طلوع فجر کے بعد تھوڑی دیر ٹھہر کر منیٰ کو چلا جائے طلوع آفتاب کا انتظار نہ کرے تو بھی واجب ادا ہو گیا ، واجب کی ادائیگی کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ نماز فجر مزدلفہ میں پڑھ لے، مگر سنت یہی ہے کہ طلوع آفتاب سے کچھ پہلے تک ٹھہرے مزدلفہ کے تمام میدان میں جہاں چاہے وقوف کرسکتا ہے سوائے وادی محسر کے جو منیٰ کی جانب مزدلفہ سے خارج وہ مقام ہے جہاں اصحاب فیل پر عذاب آیاتھا لہذا وہاں وقوف جائز نہیں ہے ، افضل یہ ہے کہ جبل قزح کے قریب وقوف کرے، اگر ازدحام کی وجہ سے وہاں پہنچنا مشکل ہو تو مزدلفہ میں جس جگہ ٹھہرا ہٍے وہیں صبح کی نماز اندھیرے میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر وقوف کرے اس وقوف میں تلبیہ اور تکبیر و تہلیل اور استغفار و توبہ اور دعا کی کثرت کرے، ایمان پر خاتمہ اور عذاب قبر سے حفاظت اور اللہ کی رضا حاصل کر نے کی خاص طور پر دعا کر ے،
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِبار بار پڑھتا رہے۔
وقوف مزدلفہ کے بارے میں بہت سے لوگ یہ غلطی کر تے ہیں کہ عرفات سے آتے ہو ئے سیدھے منیٰ چلے جاتے ہیں اور بعض حاجی ایک دو گھنٹہ مزدلفہ میں رہ کر رات ہی کو منیٰ پہنچ جاتے ہیں ، یہ لوگ مزدلفہ میں رات گزارنے اور صبح صادق کے بعد وقوف کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں اور جیساکہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ وقوف ترک کر نے کی وجہ سے ان پر دم لازم آتا ہے ۔
مزدلفہ سے منی روانگی
جب طلوع آفتاب میں دو رکعت ادا کرنے کے بقدر وقت رہ جائے تو مزدلفہ سے منی کے لئے روانہ ہو جائے ، اس کے بعد تاخیر کرنا خلاف سنت ہے، اور بہتر یہ ہے کہ آج کی رمی کے لئے سات کنکریاں جمع کر لے چنے یا کھجور کی چھوٹی گٹھلی کے برابر مزدلفہ سے اٹھا کر ساتھ لے جائے ورنہ کہیں سے بھی اٹھا لینا جائزہے ۔
منیٰ پہنچ کر جمرہ عقبہ کی رمی کرنا
منیٰ پہنچ کر سب سے پہلا کام جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہے، منیٰ میں تین ستون اونچے بنے ہوئے ہیں ان کو جمرات اور جمار کہتے ہیں اور ایک کو جمرہ کہتے ہیں ، ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے اس کو جمرہ اولی اور اس کے بعد والے کو جمرہ وسطی اور اس کے بعد والے کو جو سب سے اخیر میں ہے جمرہ عقبہ اور جمرہ کبری کہتے ہیں، ان ستونوں کے گر د گھیرا بناہوا ہے اس میں کنکر یاں پھینکنے کو رمی کہتے ہیں ۔
دسویں تاریخ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی ہو تی ہے ، مزدلفہ سے چل کر جب منیٰ پہنچے تو پہلے اور دوسرے جمرہ کو چھوڑ کر سیدھا جمرہ عقبہ پر جائے اور اس کو سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری کے ساتھ تلبیہ پڑھنا بندکردے، مفرد ہو یا متمتع یا قارن سب کے لئے ایک ہی حکم ہے ، رمی کرتے ہوئے ہر کنکری کے مارنے کے وقت تکبیر اور دعا اس طرح پڑھے ۔
بسم الله , الله أكبر , رغما للشياطين و رضى للرحمن اللهم اجعله حجا مبرورا و ذنبا مغفورا و سعيا مشكورا
ترجمہ : میں اللہ کا نام لیکر کنکری مارتاہوں اللہ سب سے بڑا ہے، میرا یہ عمل شیطان کو ذلیل کرنے کیلئے و رحمن کو راضی کر نے کیلئے ہے ، اے اللہ میرے اس حج کو حج مبرور بنادے اور گناہوں کو بخش دے اور میری سعی کی قدردانی فرما ( یعنی لائق ثواب بنادے ) تکبیر کے بجائے سبحان اللہ یا لا اله الا الله پڑھنا بھی جائز ہے، ( اگر کچھ نہ پڑھے تب بھی رمی ادا ہو جا ئے گی ) لیکن بالکل ذکر چھوڑنا برا ہے ۔
جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت طلوع آفتاب سے زوال تک ہے، اور زوال سے غروب تک وقت جائز ہے یعنی اس میں نہ استحباب ہے نہ کراہت ہے اور غروب آفتاب کے بعد وقت مکروہ ہو جا تا ہے، لیکن یہ کراہت ضعیفوں اور کمزوروں کے لئے نہیں ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اس رمی کا وقت طلوع آفتاب سے لے کر آنے والی رات کے ختم تک یعنی صبح صادق طلوع ہو نے سے پہلے تک ہے، البتہ وقت میں تفصیل ہے، کچھ وقت مسنون ہے کچھ جائز ہے اور کچھ مکروہ ہے، لیکن ضعیفوں اور بیماروں اور عورتوں کے لئے وقت مکروہ میں بھی کراہت نہیں ہٍے، اگر ازدحام زیادہ ہو اور جان کا خطرہ ہو تو عصر کے بعد یا کسی بھی وقت صبح صادق سے پہلے پہلے رمی کر لے۔
جو لوگ رمی کر سکتے ہیں بہت سے لوگ ان کی طرف سے بھی نیابت رمی کر دیتے ہیں یہ درست نہیں ہے، اس طرح سے ترک رمی کا گناہ ہو تا ہے اور دم واجب ہو تا ہے، غروب آفتاب کے بعد وہ لوگ رمی کرلیں جو بھیڑ اور ازدحام کی وجہ سے دوسروں کو نائب بنا دیتے ہیں عورتوں کو بھی رات کو رمی کرادیں اس سے تکلیف نہ ہو گی، اگر کسی نے صبح صادق تک بھی رمی نہیں کی تو قضا ہو گئی ، گیارہویں تاریخ کو اس کی قضا بھی کر ے اور دم بھی دے ۔
قربانی
جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر بطور شکرانہ حج کی قربانی کرے، اور یہ قربانی مفرد کیلئے مستحب ہے اور قارن اور متمتع پر واجب ہے ۔
جو شخص خود ذبح کرنا جانتاہو اس کے لئے اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اور اگر ذبح کرنا نہ جانتا ہو تو ذبح کے وقت قربانی کے پاس کھڑا ہو نا مستحب ہے، اگر ذبح کی جگہ حاضر بھی نہ ہو اور دوسرے سے ذبح کرادے تو یہ بھی درست ہے ذبح سے پہلے یہ دعا پڑھے
إِنِّى وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى اﷲ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ مِنْكَ وَلَكَ .
اس کے بعد بسم اللہ و اللہ اکبر کہہ کر ذبح کردے ۔
یہ بیان حج کی قربانی کا تھا ، اور جو قر بانی صاحب نصاب پر ہر علاقہ میں واجب ہو تی ہے اس کا حکم حاجیوں کے بارے میں یہ ہے کہ ان میں سے جو شخص مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت کر کے مقیم تھا اور وہ حج کے احکام ادا کرنے کے لئے منیٰ اور عرفات آیا ہے تو اس پر وہ دوسری قربانی بھی واجب ہے، لیکن اس قربانی کا منی یا حرم میں ہونا ضروری نہیں ہے، اگر اپنے وطن میں کرادے تب بھی درست ہے ، اور جو شخص مکہ معظمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ کی نیت کر کے مقیم نہ تھا بلکہ پندرہ دن سے کم مدت مکہ میں رہ کر منیٰ و عرفات کیلئے روانہ ہو گیا تو اس پر وہ قربانی واجب نہیں جو صاحب نصاب پر ہر سال ہر علاقہ میں واجب ہو تی ہے، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا کہ قارن اور متمتع پر قربانی واجب ہے، یعنی ایک بکری یا بھیڑ یا دنبہ جس کی عمر کم از کم ایک سال ہو ذبح کردے، یا پانچ سالہ اونٹ یا دو سالہ گائے میں ساتواں حصہ لے لے ، تمتمع اور قران کی قربانی حدود حرم میں ہو نا واجب ہے ، اور منیٰ میں ہو نا افضل ہے ۔
اگر کسی متمتع یا قارن کو پیسہ نہ ہو نے کی وجہ سے قربانی کی طاقت نہ ہو تو وہ اس کے بدلے دس روزے رکھ لے لیکن شرط یہ ہے کہ ان میں سے تین روزے دسویں ذی الحجہ سے پہلے پہلے رکھ لئے ہوں اور احرام عمرہ کے بعد رکھے ہوں اور حج کے مہینوں میں یعنی شوال، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں رکھےہو ں، اور سات روزے ایام تشریق گزر جانے کے بعد رکھے خواہ مکہ میں خواہ کسی اور جگہ لیکن گھر آکر رکھنا افضل ہے ۔ اگر کسی قارن یا متمتع نے دسویں تاریخ سے پہلے یہ تینوں روزے نہ رکھے تو اب قربانی ہی کرنی پڑے گی، اگر اس وقت قربانی کی قدرت نہیں ہے تو سر منڈا کر یا بال کٹا کر احرام سے نکل جائے لیکن جب مقدور ہو جائے تو ایک دم قران یا تمتع کا اور ایک دم ذبح سے پہلے حلال ہو نے کا دیدے ۔ یعنی دو قربانیاں دے اور اگر ایام نحر کے بعد ذبح کرے تو تیسرا دم ایام نحر سے مؤخر کر نے کا لازم ہو گا ۔
واضح رہے قران اور تمتع کی قربانی دسویں گیارہوں یا بارھویں تاریخوں میں کسی تاریخ میں کرنا لازم ہے، بارہویں کا سورج چھپنے سے پہلے قربانی کر دے ، لیکن متمتع اور قران والا جب تک قربانی نہ کرے اسو قت تک حلق یا قصر نہ کرائے ، کسی وجہ سے دسویں تاریخ تک قربانی نہ کر سکے تو گیارہ بارہ کو کر لے لیکن بال منڈانا یا کتروانا بھی قارن اور متمتع قربانی پر موقوف رکھے ، اس کو خو ب سمجھ لینا چا ہئے ۔
حلق اور قصر کا بیان
حلق سر منڈانے کو اور قصر بال کٹانے کو کہتے ہیں ، احرام عمرہ کا ہو یا حج کا یا دونوں کا ایک ساتھ باندھا ہو ہر صورت میں حلق اور قصر ہی احرام سے نکلنے کے لئے متعین ہے، جب تک حلق یا قصر نہ کریگا احرام سے نہ نکلے گا ، اگر سلے ہو ئے کپڑے حلق یا قصر سے پہلے پہن لئے یا سرکے علاوہ کسی اور جگہ کے بال مونڈ لئے یا ناخن کا ٹ لئے یا خوشبو لگا لی تو جزا واجب ہو گی ،عمرہ کرنے والا شخص جب عمرہ کی سعی سے فارغ ہو جائے تو حلق یا قصر کروا لے ، اور حج افراد والا اور تمتع والا جس نے آٹھ تاریخ کو مکہ سے حج کا احرام باندھا تھا اور اس سے پہلے عمرہ کر کے فارغ ہو چکا تھا ، اور قارن یہ تینوں دسویں تاریخ کو منی میں رمی اور قربانی کے بعد حلق یا قصر کرائیں، اور اگر بارہویں تاریخ کا سورج چھپنے تک حلق یا قصر کو مؤخر کردے تو یہ بھی جائز ہے، بارہویں تاریخ کا سورج چھپ جا نے کے بعد حلق یا قصر کریں گے تو دم واجب ہو گا، اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ حلق اور قصر حرم ہی میں ہو نا واجب ہے ، اگر حرم کے باہر حلق یا قصر کیا تو اس کی وجہ سے دم واجب ہو گا ، یہ بات پہلے گذر چکی ہے کہ جس کا صرف حج کا احرام ہو یعنی مفرد ہو وہ دس تاریخ کو رمی کرنے کے بعد حلق یا قصر کراسکتاہے کیونکہ قربانی اس پر واجب نہیں ہے مستحب ہے ، اگر وہ مستحب پر عمل کرتا ہے تو بہتر ہے کہ قربانی کے بعد حلق یا قصر کرائے ، اور جس شخص کا حجِ قران یا تمتع ہو وہ قربانی سے پہلے حلق یاقصر نہ کرائے، تمتع اور قران والے پر قربانی بھی واجب ہے ۔
حلق اور قصر کا طریقہ
قبلہ رخ بیٹھ کر سر کے بال منڈائے یا کتروائے ، اپنی داہنی جانب سے سر منڈانا یا کتروانا شروع کر ے، چوتھا ئی سر کے بال مونڈ دینا یا چوتھائی سر کے بال کم از کم انگلی کے ایک پورے کے برابر کاٹ دینا احرام سے نکلنے کے لئے واجب ہے ، اس سے کم مونڈ نے یا کاٹنے سے احرام سے نہ نکلے گا عمرہ والا ہو یا حج والا سب کا ایک ہی حکم ہے ، افضل یہ ہے کہ سارے سر کے بال منڈادے، اگر نہ منڈائے تو سارے سر کے بال بقدر انگلی کے ایک پورے کے کٹوادے، گو احرام سے نکلنے کیلئے چوتھائی سر کے بال مونڈ دینا یا بقدر ایک پورے کٍے چوتھائی سر کے کاٹ دینا کافی ہے، لیکن کچھ سر منڈانا کچھ چھوڑنا ممنوع ہے ، لہذا پورا سر منڈائے یا پورے سر کے بال انگلی کے ایک پورے کے بقدر کٹوائے تاکہ سنت کے خلاف نہ ہو ، اور قصر کر نے والا ایک پورے کے برابر بال کاٹنا چاہے تو ایک پورے سے زیادہ لے لے کیونکہ بال چھوٹے بڑے بھی ہو تے ہیں، اگر ایک پورے سے زیادہ لے گا تب پورے سر کے بال ایک پورے کے برابر کٹ جانے کا یقین ہو گا ، چند بال کاٹنے سے احرام سے نہیں نکلے گا خوب سمجھ لیں، اور چونکہ عورت کو سر کے بال منڈانا حرام ہے اس لئے وہ بقدر ایک پورے کے پورے سر کے بال کٹا کر احرام سے نکل جائے ، اور کم از کم چوتھا ئی سر کے بال بقدر ایک پورے کے ضرورکٹوائے جس کا طریقہ یہ ہے کہ چوٹی کے سرے سے بال برابر کر کے ایک پورے کے برابر کاٹ دیں ، حلق اور قصر سے پہلے لبیں اور ناخن وغیرہ نہ کٹوائے اور نہ بغل کے بال صاف کرے ورنہ جزا واجب ہو گی ، حلق یاقصر کراتے وقت اللہ اکبر کہے ، اور حلق یا قصر کرانے کے بعد بھی تکبیر کہے ، حلق و قصر کے بعد حاجی کے لئے ممنوعات احرام کی پابندی ختم ہو جا تی ہے ، یعنی خوشبو لگانا ، ناخن کاٹنا بال کاٹنا سلے ہوئے کپڑے پہننا ، سر اور چہرہ ڈھانکنا یہ سب کا م جائز ہو جاتے ہیں، البتہ میاں بیوی والے خاص تعلقات حلال نہیں ہو تے، وہ طوافِ زیارت کے بعد حلال ہو تے ہیں ۔
طوافِ زیارت
منیٰ میں رمی اور ذبح اورحلق یا قصر کرانے کے بعد مکہ معظمہ جاکر طوافِ بیت اللہ کرے ، یہ طواف حج کے فرائض میں سے ہے جس کو طواف رکن اور طواف افاضہ اور طوافِ زیارت کہتے ہیں ، اس کا اول وقت دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق طلوع ہو جاتے ہی شروع ہو جا تا ہے ، اس سے پہلے جائز نہیں ہے ، اور طوافِ زیارت دس گیارہ ، بارہ تینوں دنوں میں ہو سکتا ہے۔ البتہ دسویں ذی الحجہ کو اس کا ادا کر لینا افضل ہے ، اور جب بارہویں تاریخ کو آفتاب غروب ہو گیا تو اس کا صحیح وقت نکل گیا ، اگر بارہ ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہو نے کے بعد کریگا تو طواف ادا ہو جائے گا لیکن ایک دم واجب ہو گا ، طوافِ زیارت کر نے کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بھی حلال ہو جائیں گے ۔
واضح رہے کہ اگر کسی نے طوافِ قدوم کے ساتھ حج کی سعی کرلی تو اب طوافِ زیارت میں رمل نہ کرے ، اور اگر اس وقت سعی نہیں کی تھی تو اب طوافِ زیارت کے بعد سعی کرلے اور طوافِ زیارت کے شروع کے تین چکروں میں رمل بھی کر ے۔
اب رہا مسئلہ اضطباع کا تو چونکہ اضطباع کا تعلق بغیر سلے ہو ئے کپڑے پہننے کی حالت سے ہے اس لئے جو شخص طوافِ زیارت کے بعد سعی کرے اگر اس نے اب تک حلق نہیں کرایا ہے اور سلے ہوئے کپڑے نہیں پہنے ہیں تو طوافِ زیارت میں اضطباع کرے، اور اگر حلق یا قصر کراکے سلے ہو ئے کپڑے پہن چکا ہے تو اب اضطباع کا موقع رہا ہی نہیں بلا اضطباع ہی طواف کرے ۔
طوافِ زیارت کے بعد منیٰ کو واپسی
دسویں تاریخ کو طوافِ زیارت کے بعد منی واپس آجائے اور گیارہویں بارہویں شب منی میں گزارے اور ان دونوں دنوں میں زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے دس تاریخ کو طوافِ زیارت نہ کیا ہو تو گیارہویں بارہویں تاریخ میں سے کسی وقت رات کو یا دن کو مکہ معظمہ جا کر طواف کر لے ۔
چوتھا دن ۱۱ ذی الحجہ
اگر قربانی یا طوافِ زیارت کسی وجہ سے دس تاریخ کو نہیں کر سکا تو آج گیارہویں کو کر لے، زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے ، آج کی رمی کا وقت مستحب زوال کے بعد شروع ہو کر غروب آفتاب تک ہے ، غروب کے بعد مکروہ ہے ، مگر بارہویں تاریخ کی صبح طلوع ہو نے سے پہلے پہلے رمی کرلی جائے تو ادا ہو جاتی ہے دم نہیں دینا پڑتا ، اور اگر بارہویں تاریخ کی صبح ہو گئی تو اب گیارہویں تاریخ کی رمی کا وقت فوت ہو گیا ، اس کی قضا اور جزا دونوں لازم ہو ں گی ، یعنی بارہویں تاریخ کو اس دن کی رمی بھی کرے اور گیارہویں کی فوت شدہ رمی کی قضا بھی کرے ، اور دم بھی دے ، گیارہویں تاریخ کی رمی اس ترتیب سے کرے کہ پہلے جمرہ اولی پر سات کنکریاں اسی طریقے سے مارے جس طرح دس تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کر چکا ہے ، اس کی رمی سے فارغ ہوکر مجمع سے ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے ، کم سے کم اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر میں بیس آیتیں پڑھی جاسکیں ، اس وقفہ میں تکبیر و تہلیل ، استغفار و درورد شریف میں مشغول رہے ، اپنے اور اپنے احباب اور عام مسلمانوں کے لئے دعا کرے یہ بھی قبولیت دعا کا مقام ہے، اس کے بعد جمرہ وسطی پر آئے اور اسی طرح سات کنکریاں مارے جس طرح پہلے مار چکا ہے اور اس کے بعد مجمع سے ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا ء و استغفار میں کچھ مشغول رہے ، پھر جمرہ عقبہ پر آئے اور یہاں بھی حسب سابق سات کنکریوں سے رمی کرے اور اس کے بعد دعا ء کیلئے نہ ٹھہرے کہ یہاں دعا کیلئے ٹھہرنا سنت سے ثابت نہیں ہے ، البتہ وہاں سے واپس ہو کر چلتے ہو ئے دعاء مانگ لے ۔ آج کی تاریخ کا اتنا ہی کام تھا جو پورا ہو گیا، باقی اوقات اپنی جگہ پرمنی میں گزارے ، ذکر اللہ ، تلاوت ، دعاؤں ، میں مشغول رہے غفلتوں اور فضول کاموں میں وقت ضائع نہ کرے ۔
گیارہویں تاریخ کی رمی بھی عورتوں اور کمزوروں کو آنے والی رات میں کسی وقت کرلینی چاہئے ، نہ بالکل ترک کر ے نہ کسی کو نائب بنائے ، رات میں بھیڑ نہیں ہوتی صحتمند آدمی بھی اگر رش کی وجہ سے جان کا خطرہ محسوس کرے تو رمی رات کو کر سکتاہے ، اللہ کے دین میں تنگی نہیں ہے ۔
پانچواں دن،۱۲ ذی الحجہ اور مکہ معظمہ کو واپسی
آج کا کام تینوں جمرات کی رمی کرنا ہے ، زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرے جس طرح ۱۱ ذی الحجہ کو کی ہے ، بارہویں کی رمی کا مسنون وقت زوال سے غروب تک ہے ، اور غروب سے لیکر صبح صادق تک وقت مکروہ ہے مگرعورتوں اور ضعیفوں کے لئے مکروہ نہیں ہے ، اگر اب تک قربانی نہ کی ہو یا طوافِ زیارت نہ کیا ہو تو آج سورج چھپنے سے پہلے ضرور کر لے اور آج کی رمی بھی کر لے ۔
ذی الحجہ کی رمی ۱۳
۱۲ ذی الحجہ کی رمی کر نے کے بعد اب تیرہویں تاریخ کی رمی کے لئے منی میں مزید قیام کر نے نہ کرنے کا اختیار ہے ، اگر چاہے تو بارہویں تاریخ کی رمی سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ جا سکتا ہے بشرطیکہ غروب آفتاب سے پہلے منی سے نکل جائے، اگر بارہویں تاریخ کو آفتاب منی میں غروب ہو گیا تو اب منی سے نکلنا مکروہ ہے ، اس کو چا ہئے کہ آج رات اور منی میں قیام کرے اور تیرہویں تاریخ رمی کر کے مکہ معظمہ جائے اور اگر منی میں تیرہویں کی صبح ہو گئی تو اس دن کی رمی بھی اس کے ذمہ واجب ہو گئی بغیر رمی کئے ہو ئے جانا جائز نہیں ہے، اگر بغیر رمی کے چلا جائے گا تو دم واجب ہو گا افضل یہی ہے کہ بارہویں تاریخ کی رمی کے بعد غروب سے پہلے جانا جائز ہو نے کے باوجود خود اپنے ارادہ سے رات کو وہاں ٹھہرے اورصبح کو زوال آفتاب کے بعد تینوں جمرات کی رمی کر کے مکہ معظمہ جائے ، اس دن کی رمی کا وہی طریقہ ہے جو گیارہویں اور بارہویں کی رمی کے بیان ذکر ہوا ، اور اس دن کی رمی کا صحیح وقت زوال سے لے کر غروب آفتاب تک ہے آنے والی رات اس دن کے تابع نہیں ہے لہذا اس دن کی رمی صرف غروب سے پہلے پہلے ہو سکتی ہے رات میں نہیں ہو سکتی ، اکر غروب آفتاب تک رمی نہ کی تو رمی کا وقت ختم ہو گیا مگر اس دن کی رمی واجب ہو چکی تھی اور غروب آفتاب تک نہ کی تو اس کے ترک کر نے سے ایک دم واجب ہو گا ۔
اگر کسی نے تیرہویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد زوال سے پہلے رمی کرلی تو کراہت کے ساتھ ادا ہو جائے گی، زوال سے پہلے اس دن کی رمی کرنا مکروہ ہے لیکن اس کراہت کی وجہ سے دم واجب نہ ہو گا ۔
بارہویں یا تیرہویں تاریخ کی رمی کر کے مکہ معظمہ آجائے، اور مکہ معظمہ سے روانہ ہو نے تک اعمال صالحہ میں مشغول رہے خصوصا طواف کثرت سے کرے اور چاہے تو عمرٍے کرتا رہے لیکن زیادہ طواف کرنا زیادہ عمرے کرنے سے بہتر ہے ،اور جو عمرہ کرے تیرہویں تاریخ کے بعد کرے ۔
طوافِ وداع
میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد رخصتی کا طواف کریں ، اس کو طوافِ وداع اور طواف صدر کہتے ہیں اور یہ حج کا آخری واجب ہے اور اس میں حج کی تینوں قسمیں برابر ہیں ’ یعنی ہر قسم کا حج کرنے والے پر واجب ہے ، البتہ اہل حرم اور حدود میقات کے اندر رہنے والوں پر واجب نہیں ، اور جو عورت حج کے سب ارکان و واجبات ادا کر چکی ہے اور طوافِ زیارت کے بعد حیض آگیا اور ابھی پاک نہیں ہوئی ہے کہ اس کا محرم روانہ ہو نے لگا تو یہ طوافِ وداع اس پر بھی واجب نہیں رہتا وہ اپنے محرم کے ساتھ طوافِ وداع کئے بغیر جاسکتی ہے ۔
طوافِ وداع کے لئے نیت بھی ضروری نہیں، اگر طوافِ زیارت کے بعد کوئی نفلی طواف کرلیا ہے تو وہ بھی طوافِ وداع کے قائم مقام ہو جاتا ہے اور اسی سے طوافِ وداع ادا ہو جاتا ہے ، لیکن افضل یہی ہے کہ مستقل نیت سے عین واپسی کے وقت طواف کرے۔
اگر طوافِ وداع کر لینے کے بعد کسی ضرورت سے پھر مکہ میں قیام کرے تو پھر چلنے کے وقت طوافِ وداع کا دوبارہ کرنا مستحب ہے، طوافِ وداع کے بعد دوگانہ طواف پڑھے، پھر مستقبل قبلہ ہوکر زمزم کا پانی پیئے ، پھر حرم سے رخصت ہو ،
اس موقع کی کوئی خاص مسنون دعا منقول نہیں ہے جو چاہے دعا مانگے ، اور واپسی پر حسرت اور افسوس کرے، اور بار بار آنے کی دعا کرے۔
( حضرت مولانا مفتی محمد عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ تعالیٰ )